تعارف: استشراق(Orientalism) اور مستشرق کا لغوی
و اصطلاحی معنی
استشراق عربی زبان کے مادہ( ش۔ر۔ق)
سے مشتق ہے جس کے معنی شر ق شناسی کے ہیں، یہ اصطلاح زیادہ
قدیم نہیں ہے؛ اس لیے قدیم عربی ،فارسی اور
اردو معاجم میں شرق تو موجود ہے؛ لیکن زیر بحث الفاظ ، یعنی
باب استفعال میں اس کے معنی ومفہوم یا بطور فعل ان لغات سے بحث
نہیں پائی جاتی؛ البتہ جدید لغات میں استشراق کا
ذکر موجود ہے۔
شرف الدین اصلاحی اس”Orientalist “ کے متعلق فرماتے
ہیں کہ یہ لفظ انگریزوں کا وضع کردہ ہے جس کے لیے عربی
میں استشراق کا لفظ وضع کیا گیا ہے لفظ ”orient“ بمعنی مشرق اور ”Orientalism“کا معنی شرق
شناسی یا مشرقی علوم وفنون اور ادب میں مہارت حاصل کرنے
کے ہیں۔ مستشرق ( اشتشرق کے فعل سے اسم فاعل ) سے مراد ایک ایسا
شخص ہے جو بہ تکلف مشرقی بنتا ہے ۔(۱)
مولوی عبد الحق صاحب Orientalist کے متعلق فرماتے ہیں
کہ اس شخص کو کہتے ہیں جو ماہر مشرقیات ہو۔ (۲)
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق استشراق
اور مستشرق کی اصطلاحات orient سے مشتق ہیں(۳)۔
(Han's Wahr)نے ”عربی ، انگریزی معجم “میں استشراق کے
معنی مشرقی علوم اور مستشرق کے معنی مشرقی آداب سے آگاہ یا
مشرقی علوم کے ماہر بتائے ہیں۔(۴)
”عربی اعتبار سے ” استشراق “کا سہ
حرفی مادہ ” شرق“ ہے ، جس کا مطلب ” روشنی “ اور ”چمک “ ہے ،اس لفظ کو
مجازی معنوں میں سورج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا
ہے اس اعتبار سے شر ق اور مشرق اس جگہ کو کہا جائے گا جہاں سے سورج طلوع ہو۔(۵)
جب لفظ ” شرق“ پر (ا، س، ت) کا اضافہ کر
کے استشراق بنایا جائے تو اس میں طلب کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے،
تو اس طلب میں مستشرقین کے تمام تر مقاصد شامل ہو جاتے ہیں جس
کے لیے وہ مشرقی علوم وفنون کو سیکھنے کے بعد ان علوم کی
نشرواشاعت بھی کرتے ہیں۔
”منیر البعلبکی نے استشراق کے
معنی”معرفة ودراسة اللغات والآداب الشرقیة“ بیان کیے ہیں
اور مستشرق سے مراد ”الدارس للغات الشرق وفنونہ وحضارتہ“ہے۔(۶)
استشراق(Orientalism) اور مستشرق کا
اصطلاحی مفہوم
استشراق کا عام فہم اور سادہ مفہوم یہ
ہے کہ جب بھی کوئی استشراق کا نام لیتا ہے تو اس سے مرادوہ یورپین
علماء و مفکرین مراد ہوتے ہیں جن کو اہل یورپ” Orientalist“کہتے ہیں۔
ماہرین لغات ومفکرین نے استشراق(Orientalism )اور مستشرق( Orientalist) کا جو اصطلاحی
مفہوم بیان کیا ہے، ان میں سے کچھ کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
”مستشرق وہ شخص ہے جو خود مشرقی نہ ہو
بلکہ بہ تکلف مشرقی بنتا ہو، مشرقی علوم میں مہارت تامہ حاصل
کرنے کی کوشش کرے“(۷)
ایڈورڈ سید(Edward Said ) تحریک
استشراق اور مستشرق کے الفاظ کو وسعت دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
"Any one who teaches, writes about, or
researches the orient and this applies whether the person is an authropologist,
socialogist, historian, or philologist either in its specific or its general
aspects, is an orientalist, and what he or she does is Orientalism."(8)
”جو کوئی بھی مشرق کے بارے میں
پڑھتا،لکھتا یا اس پر تحقیق کرتا ہے تو یہ تحقیقی
معیار تمام تر پڑھنے لکھنے اور تحقیق کرنے والے ماہر بشریات،
ماہر عمرانیات،مورخین اور ماہر لسانیات پر منطبق ہوتا ہے۔خواہ
یہ لوگ اپنے اپنے دائرہٴ شخصی میں خاص موضوع یا
اپنے کسی عمومی مضمون پر کام کررہے ہوں،مشرق شناس(مستشرق) کہلاتے ہیں
اور انکا کیا جانے والا کام شرق شناسی ہوگا“؛ لیکن موجودہ دور میں
مستشرقین نے اپنے لیے مختلف نام تجویز کیے ہیں جن
کو مولانا ابو الحسن علی ندوی نے ان الفاظ میں واضح کیا
ہے کہ ” اب مستشرقین ، مستشرق کہلوانا پسند نہیں کرتے دوسری
عالمگیر جنگ کے بعد وہ ” ایڈوائزر“یا ایریا سٹڈی
سپیشلسٹ، ایکسپرٹ کہلواناپسند کرتے ہیں “(۹)
مجموعی طور پر تحریک استشراق
کے دائرہ میں بڑی وسعت ہے جو مشرق میں موجود تمام ممالک،مذاہب
زبانوں ،تہذیب وتمدن، باشندوں، انکی رسوم و رواج اور عادات و اطوار کے
متعلق تحقیق کر کے ان کے علاقوں پر قبضہ کرنے اور انھیں اپنی
دسترس میں رکھنے، جیسے بہت سے شعبہ جات پر محیط ہے؛ لیکن
اس تحریک کا سرگرم شعبہ،اسلام،اہل اسلام ان کے ممالک واملاک پر قبضہ کرکے
اسے قائم رکھنے پر بحث کرتا ہے۔ اور اکثر مسلمان محقق جب تحریک
استشراق پر بحث کرتے ہیں تو ان کے پیش نظر استشراق کا یہی
شعبہ ہوتا ہے۔ اس تصور کو سامنے رکھتے ہوئے اکثر مسلم اسکالرز ایک
مستشرق کی درج ذیل تعریف کرتے ہیں” استشراق متضاد افکار
ونظریات کے مجموعہ کا نام ہے، وقت اور ماحول کی مناسبت سے اس پر کبھی
موضوعیت ، کبھی غیر جانبداری ، کبھی تحقیق
اور صاف گوئی اور کبھی علم کے ناموں کے خوبصورت غلاف چڑھا دیے
جاتے ہیں، ان پردوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قاری کو حقیقت
کے اصل چہرہ سے بے خبر رکھا جائے “(۱۰)
عربی زبان کی لغت المنجد جو
کہ کثیر الاستعمال ہے، اس میں مستشرق کی تعریف ان الفاظ میں
کی گئی ہے۔ ”العالم باللغات والادب والعلوم الشرقیة
والاسم الاستشراق“(۱۱) مشرقی زبانوں، آداب اور علوم کے عالم کو مستشرق کہا
جاتا ہے اور اس علم کا نام استشراق ہے ۔
چنانچہ مذکورہ بالا تعریفات کو
سامنے رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان مستشرقین کا مقصدِ حیات،
مشرقی تہذیب وتمدن ،مشرقی لٹریچر، مشرقی علوم وفنون
جن میں مذہب ، تاریخ، ادب ، لسانیات ، بشریات ،معا شیات
،سیاسیات وغیرہ شامل ہیں اور مشرقی اقوام کو وقعت کی
نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان مستشرقین نے مردہ اقوام کی گم شدہ
تاریخوں کی جستجو کی ، ان کے ویران و بے نشان یادگاروں
کا پتہ لگایا ، ان کے منہدم اور بوسیدہ کھنڈروں کی ایک ایک
اینٹ اور ایک ایک پتھر کی تاریخ کا ایک ایک
صفحہ سمجھ کر مطالعہ کیا، ان کے مسکن اور جائے اقامت کو کھود کھود کر اس میں
سے ایک ایک ذرہ نکالا ، ان کی غیر مفہوم کتابوں کو بادقت
تمام پڑھا ، ان کے قدیم رسوم ورواج ، ان کی زبان اور ان کی شاعری
کا بغور مطالعہ کیا اور ان سے نتائج اخذ کیے ، اور اس طرح ان مردہ اور
گم شدہ اقوام کی ایک مسلسل تاریخ کا سرمایہ بہم پہنچایا
، زندہ اقوام کی تاریخ کو پڑھا ، ان کی نادر تصنیفات کو
بہم پہنچایا، ان کا مطالعہ کیا ، ان کی ایجادات واکتشافات
سے واقفیت حاصل کی ، ان کی تاریخی عظمت کو تسلیم
کیا ، ان کے علوم وفنون کو ترقی دی ، ان کے تہذیب وتمدن کی
تاریخ مدون کی ، ان کے لٹریچر کی ترقی اور توسیع
میں کوشش کی ، ان کی نایاب تصانیف کو مرتب کر کے ہمیشہ
کے لیے محفوظ کر دیا اور ان کو چھاپ کر عام لوگوں کی رسائی
کو ان نایاب کتابوں تک ممکن بنایا ۔
تحریک استشراق کا تاریخی پس منظر
تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے
ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحریک استشراق کی روح ازل سے لے کر ابد
تک موجود رہے گی، اور اس کی قدامت پر حضرت آدم علیہ السلام اور
ابلیس کا واقعہ ، پھر حضرت آدم علیہ السلام اور شیطان کا ایک
ساتھ اس دنیا میں بھیجا جانابھی دلالت کرتا ہے۔ اس
کے علاوہ حق کے ساتھ باطل ، اسلام کے ساتھ کفر ، ایمان کے ساتھ الحاد کا
ہونا استشراق کی ہی صورتیں ہیں ۔اس کے قدیم
ہونے کی طرف اس شعر میں بھی اشارہ موجود ہے:
ستیزہ
کار رہا ہے ازل سے تا امروز $ چراغِ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی
اس تحریک کا آغاز دراصل ظہور اسلام
کے ساتھ ہی ہو گیا تھا اور باقاعدہ ایک تحریک کی
شکل اختیار کرنے سے پہلے بھی ، اہل مغرب کی طرف سے ، اسلام کے
خلاف بالعموم اور پیغمبر ِ اسلام کے خلاف بالخصوص ، بغض و عداوت کا اظہار
موقع بہ موقع مختلف ادوار میں ہوتا رہا ہے، اور وفور جذبات سے سرشار ، رومی
، بازنطینی ، لاطینی ، مسیحی اور یہودی
روایتیں صدیوں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں
، افواہوں کے دوش پر سفر کرتی رہیں، اور کبھی کبھار تحریر
وتصنیف اور وقائع واسفار کے قالب میں ڈھلتی رہیں اور ان کی
اپنی آئندہ نسلوں کا سرمائیہ افتخار قرار پائیں ۔(۱۲)
مگر ان کے بغض وعداوت میں شدت اس
وقت آئی جب دو قوتیں( ہلال ، صلیب )آ پس میں ٹکرائیں
ہلال نے صلیب کو ہر مقام پر پسپا کیا اور اپنے لیے ترقی کی
راہ ہموار کی ، اسی وقت سے باہم دشمنی اور چپقلش کا آغاز ہو ا۔اس
کے بارے میں محمد حیاة ہیکل اپنی کتاب حیاة محمد میں
لکھتے ہیں ”پیروان مسیحیت پر اسلام اور مسلمانوں کی
یہ ترقی شاق گزری نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام اور مسیحیت
کے درمیان شدید اختلافات کی خلیج حائل ہوگئی اور اس
نے باقاعدہ ایک کشمکش کی صورت اختیار کرلی ۔(۱۳)
سب سے پہلے جس نے اسلام کے خلاف ، اس تحریک
کا آغاز کیا وہ ساتویں صدی عیسوی کا ایک پادری
جان (John) تھا، جس نے آنحضور
کے بارے میں طرح طرح کی جھوٹی باتیں گھڑیں اور
لوگوں میں مشہور کر دیں؛ تا کہ آپ کی سیرت وشخصیت ایک
دیو مالائی کردار سے زیادہ دکھائی نہ دے ۔ جان آف
دمشق کی یہی خرافات مستقبل کے استشراقی علماء کا ماخذ
ومصدر بن گئیں، جان آف دمشق کے بعد عیسائی دنیا کے بیسیوں
عیسائی اور یہودی علماء نے قرآن کریم اور آنحضو ر کی
ذات گرامی کو کئی سو سال تک موضوع بنائے رکھا اور ایسے ایسے
حیرت انگیز افسانے تراشے جن کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی
واسطہ نہ تھا، ان ادوار میں زیادہ زور اس بات پر صرف کیا گیا
کہ آپ امی نہیں؛بلکہ بہت پڑھے لکھے شخص تھے ، تورات اور انجیل
سے اکتساب کر کے آپ نے قرآنی عبارتیں تیا ر کیں ، بہت بڑے
جادوگر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ (العیاذ باللہ ) حد درجہ ظالم ، سفاک ، اور جنسی
طور پر پراگندہ شخصیت کے حامل تھے ۔ فرانسیسی مستشرق کا
راڈی فوکس(Carra de Vaux) نے آنحضور کی
ذات گرامی کے بارے میں لکھاہے کہ محمد ایک لمبے عرصے کے لیے
بلاد مغرب میں نہایت بری شہرت کے حامل رہے اور شاید ہی
کوئی اخلاقی برائی اور خرافات ایسی ہو جو آپ کی
جانب منسوب نہ کی گئی ہو ۔تعجب کی بات یہ ہے کہ
اسلام کی آمد سے کم وبیش آٹھ سو سال بعد تک مغربی ممالک میں
اسلام کے خلاف نفرت نا کافی اور ادھوری معلومات کی بنیاد
پر ہی پنپتی رہیں، مثال کے طور پر گیارہویں صدی
عیسوی کے آواخر میں( Song of Roland) جو پہلی صلیبی جنگوں کے دوران ہی وضع کیا
گیا ، بہت مشہور ہوا ، اسی طرح کی بیہودہ باتوں پر مشتمل
تھا۔(۱۴)
تحریک استشراق کے محرکات
تحریک ِ استشراق کے معرض ِ وجود میں
آنے کا سب سے بنیادی محرک دینی تھا، لیکن اس کے
ساتھ ساتھ سیاسی ،اقتصادی ،علمی اور تحقیقی
محرک بھی شامل تھے:
۱- دینی محرک: ”استشراق کا سب سے بڑ امقصد مذہب عیسوی
کی اشاعت و تبلیغ اور اسلام کی ایسی تصویر پیش
کر نا ہے کہ مسیحیت کی برتری اور ترجیح خو د بخود
ثابت ہو اور نئے تعلیم یافتہ اصحاب اور نئی نسل کے لیے مسیحیت
میں کشش پیدا ہو۔ چنانچہ اکثر استشراق اور تبلیغِ مسیحیت
ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔“(۱۵)
۲- سیاسی
محرک: ”سیاسی محرک میں یہ بات تسلیم کرنا پڑتی
ہے کہ اہل مغرب کا رویہ اسلام کے متعلق شروع ہی سے معاندانہ چلا آ رہا
ہے صلیبی جنگوں کی تلخ یادیں ابھی تک ان کے
ذہنوں سے محو نہیں ہوئی تھیں“ (۱۶)
”سیاسی محرک یہ ہے کہ
مستشرقین عام طور پر مشرق میں مغربی حکومتوں اور اقتدا ر کا
ہراول دستہ (Pioneer ) رہے ہیں۔
مغربی حکومتوں کو علمی کمک اور رسد پہنچانا ان کا کام ہے۔ وہ ان
مشرقی اقوام و ممالک کے رسم و رواج ،طبیعت و مزاج، طریق ماند
وبود اور زبان و ادب؛بلکہ جذبات و نفسیات کے متعلق صحیح اور تفصیلی
معلومات بہم پہنچاتے ہیں؛ تاکہ ان پر اہلِ مغرب کو حکومت کرنا آسان ہو۔“(۱۷)
۳- اقتصادی
محرک: ”ان اہم مذہبی و سیاسی محرکات کے علاوہ قدرتی
طور پر استشراق کا ایک محرک اقتصادی بھی ہے، بہت سے فضلاء اس کو
ایک کامیاب پیشہ کے طور پر اختیار کرتے ہیں، بہت سے
ناشرین اس بنا پر کہ ان کتابوں کی جو مشرقیات اور اسلامیات
پر لکھی جاتی ہیں، یورپ اور ایشیا میں
بڑی منڈی ہے، اس کام کی ہمت افزائی اور سرپرستی کر
تے ہیں، اور بڑی سرعت کے ساتھ یورپ و امریکہ میں ان
موضوعات پر کتابیں شائع ہوتی ہیں، جو بہت بڑی مالی
منفعت اور کاروبار کی ترقی کا ذریعہ ہے۔“(۱۸)
۴- علمی
اور تحقیقی محرک : ”بعض فضلاء مشرقیات و اسلامیات کو اپنے علمی
ذوق و شغف کے ماتحت بھی اختیار کرتے ہیں اور اس کے لیے دیدہ
ریزی ،دماغ سوزی اور جفاکشی سے کام لیتے ہیں
جس کی داد نہ دینا ایک اخلاقی کوتاہی اور علمی
نا انصافی ہے، ان کی مساعی سے بہت سے مشرقی و اسلامی
علمی جواہرات و نوادرپردہٴ خفا سے نکل کر منظر عام پر آئے اور جاہل
وارثوں اور ظالم لٹیروں کی دست برد سے محفوظ ہوگئے۔ متعدد اعلیٰ
اسلامی مآخذ اور تاریخی وثائق ہیں، جو ان کی محنت و
ہمت سے پہلی مرتبہ شائع ہوئے اور مشرق کے اہلِ علم نے اپنی آنکھوں کو
ان سے روشن کیا۔“(۱۹)
تحریک استشراق کے مقاصد
تمام یہود ونصاری چونکہ اپنے
آپ کو اللہ کی مقرب ترین قوم سمجھتے تھے اور آخری نبی کے
متعلق وہ گمان رکھتے تھے کہ وہ ہم میں سے ہو گا؛ مگر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو اسماعیل
میں پیدا ہوئے تویہود و نصاری نے صرف حسد اور بغض کی
وجہ سے آپ کی نبوت کا انکار کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم اور اسلام کے دشمن ہوگئے، اس طرح حضور اور اسلام سے نفرت کا اظہار ، مسلمانوں
کو یہودی اور عیسائی بنانے کی کوشش ، قرآن حکیم
، احادیث مبارکہ، عقائد وارکان اسلام کی نفی وتضحیک اور
مناظرانہ ومقابلانہ کتب لکھ کر مسلمانوں کے دین کو جھوٹا اور پیغمبر
اسلام کو (نعوذ باللہ) نبی کاذب ثابت کرنا ان کامقصد بن گیا ۔(۲۰)
ڈاکٹر مصطفی سباعی تحریکِ
استشراق کے مقاصد کے متعلق تحریر کرتے ہیں :
۱- اسلام
کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنا۔
۲- عام
مسلمانوں کو مسلم علماء سے بدظن کرنا۔
۳- ابتدائی
مسلم معاشرے کی غلط تصویر کشی کر کے مسلمانوں کی تاریخ
کو مسخ کر نا۔
۴- اسلامی
تہذیب کی تحقیر و تذلیل کرنا۔
۵- کتاب
و سنت میں تحریف کرنا، عبارتوں کو غلط مفہوم میں پیش کرنا
اور حسب خواہش قبول یارد کرنا۔(۲۱)
مستشرقین کے حدیث اور سیرة
النبی صلی اللہ علیہ
وسلم سے متعلق اہم مقاصدیہ ہیں:
۱- حدیث
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو
ناقابل اعتبار ٹھہرانامستشرقین کا خصوصی ہدف رہاہے۔ وہ جانتے
تھے کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن حکیم کی
تفسیر اور وضاحت ہے۔ جب قرآن حکیم کو وضاحت نبوی سے الگ
کردیا جائے تو مسلمان اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں
گے اور اس طرح وہ مسلمانوں کو ان کے اصل دین سے دور کرنے میں کامیاب
ہوسکیں گے۔
۲- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت
میں اس طرح تشکیک پیدا کرنا کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم صرف قرآن کے مبلغ ہیں۔ اور ان کا کام قرآن کے مکمل نزول کے ساتھ
ختم ہوگیا ہے۔
۳- سادہ
لوح مسلمانوں کو اس بات پر مطمئن کرنے کی کوشش کرنا کہ شریعت اسلامی
یہودیت سے اخذ کردہ ہے، جیسا کہ گولڈ زیہر اور شاخت کا
دعویٰ ہے۔
۴- فقہ
اسلامی کی قدروقیمت میں تشکیک پیدا کرنا۔
۵- اسلامی
تہذیب وتمدن کے بارے میں مسلمانوں کے اندر شکوک پیدا کرنا۔
۶- مسلمانوں
میں اپنے علمی ورثے کے بارے میں یقین کو متزلز ل
کرنا اور ان کے صحیح عقائد میں شک پیدا کرنا۔
۷- حدیث
نبوی صلی اللہ علیہ
وسلم سے مسلمانوں کا رابطہ ختم کر کے اسلامی اخوت کا دائرہ اپنے اپنے ملکوں
تک محدود کرنا۔(۲۲)
عبد القدوس ہاشمی مجموعی طور پر ان
کے مقاصد کو مختصراًیوں بیان کرتے ہیں”مستشرقین کی
اسلامی تحقیقات کا مقصد جو ان کی تحریروں سے صاف ظاہر ہے،
وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ ، استعمار کے لیے راستے کی
ہمواری اور مسلمانوں میں تفریق پھیلانے کی جدوجہد
کے سوا کچھ نہیں“۔(۲۳)
”
مستشرقین جنہوں نے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر
نقد وتنقید کی کوشش کی ہے، چوتھائی صدی تک اس فکر میں
رہے کہ کسی طریقہ سے جمہور مسلمانوں کے اعتماد کو جو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم ہے ٹھیس
پہنچائی جائے“(۲۴)
مستشرقین کا طریق تحقیق
ابتداء میں مستشرقین کا طریقہٴ
کار یہ تھا کہ کھلم کھلا اسلام دشمنی کا اظہار کرتے تھے، ان کی
کتب و رسائل، اسلام ، پیغمبرِاسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کے عناد کا واضح
مظہر تھے؛ لیکن جلد ہی مستشرقین نے محسوس کیا کہ ان کا طریقِ
تحقیق ان کے خلاف نفرت وعناد کا باعث بن گیا ہے تو یہ لوگ تحقیق
کا لبادہ اوڑھ کر میدان میں اترے اور مطلوبہ اہداف و مقاصد کو اس ذریعے
سے حاصل کرنے لگے۔
یہ لوگ رسولِ کریم کے محاسن
کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں؛ مگر جب تاریخی
حقائق کی بات آتی ہے تو اس کو مسخ کر کے پیش کرتے ہیں، اس
طرح قاری کو تذبذب کا شکار کر دیتے ہیں اور ایسے نوجوان
جو اپنی علمی ورثہ سے بالکل ہی نا واقف ہیں، وہ ان مستشرقین
کی تحقیقات کو من و عن تسلیم کرنے لگے ہیں، اس کے علاوہ
امت مسلمہ کا تعلیم یافتہ طبقہ اور جدت پسند اذہان کو بہت حد تک تشکیک
کا شکا ر کیا جا چکا ہے۔
مستشرقین کی تحقیقات کا
بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ خود
جو تحقیق کے لیے اصول پیش کرتے ہیں (یعنی غیر
جانبداری،اور حقائق کو بعینہ تسلیم
کرنا)ان کی نفی بھی خود اپنے رویہ سے کر دیتے ہیں
، دوران تحقیق بارہا اپنے مفاد کی خاطر اپنے ہی اصول کو توڑتے ہیں
اس طرح ان کی تحقیق کا ایک مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ
پیغمبر ِاسلام کو جھٹلانے کے لیے خود ہمارے علمی ورثہ سے مواد
اکٹھا کرتے ہیں، جو مواد ان کے خیال کے مطابق ان کے حق میں جاتا
ہو اسے استدلال کے طور پر پیش کرتے ہیں اور انھیں کتب میں
سے جو مواد ان کی اپنی آراء یا من چاہے نتائج کے خلاف دلیل
قطعی کی حیثیت رکھتا ہو، اسے یکلخت نظرانداز کر دیتے
ہیں۔
$ اس
کے علاوہ اکثر اوقات مستشرقین کسی واقعہ کے متعلق اپنے ذہن میں
پہلے سے ہی ایک مفروضہ قائم کر لیتے ہیں اور بعد ازاں
اپنے اس مذموم مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا
زور لگاتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھیں موضوع روایت بھی
مل جائے تو وہ اسے استشہاد کے لیے غنیمت جانتے ہیں۔
$ حدیث
اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوعات پر ان احادیث
کا سہارا لیتے ہیں، جو اکثر محدثین اور فقہاء کے نزدیک
موضوع او ر ناقابل اعتبار ہیں،جیسے قصہٴ غرانیق اور فترت
وحی کے حوالے سے کہ ان ایام میں (نعوذ باللہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی
کی بھی کوشش کی؛ بلکہWilliam Muir نے "The Life of Muhammad" میں "Seeks to commit
suicide" عنوان قائم کیا ہے۔
$ یہ
مستشرقین بعض مرتبہ اپنے تعصب کی تسکین کے لیے تحقیق
کے معیار سے اس قدر گر اوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اپنے مذموم مقاصد
کے لیے قرآن وحدیث میں لفظی تبدیلیاں بھی
کر دیتے ہیں۔(۲۵)
مستشرقین مسلمانوں میں مختلف
فیہ مسائل پر تحقیق نہیں کرتے جن کے حل ہونے سے مسلمانوں میں
تفرقہ بازی کا خاتمہ ہو؛ کیونکہ ایسا کر نا ان کے اصول” لڑاؤ
اور حکومت کرو“ کے خلاف ہے، مستشرقین بعض اوقات خلوص سے؛ لیکن اکثر
اوقات ریاکاری سے اسلام اور پیغمبر اسلام کی حمایت
کرتے ہیں؛ تاکہ وہ اس سے مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کر کے ان کے
نزدیک اپنی تحقیقات کو مستند ثابت کرسکیں۔ ” پیغمبر
اسلام کے متعلق مغرب کی عیسائی دنیا(مستشرقین) کی
بحث و تحقیق اور ان کی تحریروں کا نچوڑ سب و شتم کا ایک
لامتناہی سلسلہ ہے، جس میں کلیسائی دینی اور
مذہبی شخصیات کے ساتھ غیر دینی اور لامذہبی
افراد بھی برابر حصہ لیتے رہے ہیں، اور یہ سیلاب آج
تک رواں ہے۔(۲۷)
استشراقی لٹریچر کے اثرات
عصر حاضر میں مستشرقین نے
اسلام کے خلاف ایک اور محاذ کھول رکھا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ کسی
طرح اسلامی تعلیمات کو غیر عقلی اور غیر فطری
ثابت کیا جائے اور یہ باور کروایا جائے کہ اسلامی احکامات
بنیادی انسانی حقوق سے متصادم اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ
نہ ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل ہیں اور خلاف فطرت بھی ہیں
،جب کہ حقیقت سراسر اس کے برعکس ہے۔ (۲۸)
ان کے متعلق شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں
”وقد یظن أن الأحکام الشرعیة
غیر متضمنة لشیٍ من المصالح ․․․․ وھذا ظن
فاسدٌ تکذبہ السنة واجماع القرون المشھود لھا بالخیر“ بعض دفعہ یہ خیال ظاہر کیا
جاتا ہے کہ احکام شرعیہ کے اندر مصالح عباد کا لحاظ نہیں رکھا گیا
․․․ جبکہ یہ خیال بالکل غلط ہے جس کی قرآن،
سنت اور خیر القرون کے اہل علم کا اجماع تکذیب کرتا ہے ۔(۲۹)اس
وقت یہ محاذ مسلمان اہل علم کی فوری توجہ کا متقاضی ہے ۔
مستشرقین کا سب سے اہم ہتھیار
جس سے انھوں نے مسلمانوں کو متاثر کرنا چاہا اس کا تعلق سیرة سے ہے، انھوں
نے واقعات سیرت کا صحیح طور پر تجزیہ نہیں کیا ، ان
کی تحقیقات سے سیرت طیبہ کی اصلی روح مجروح
ہوئی ہے اور دانستہ یا نادانستہ انھوں نے صداقتوں کا انکار کیا
ہے اور سیرت نگاری کرتے ہوئے غلط فہمیوں کو جگہ دی اور
لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں
غلط تاثر دینا چاہا،سیرت نگاری کے متعلق غلط تاثر اور واقعات کو
غلط طور پر پیش کرنے کے کے لیے کمزور روایتوں سے مدد لی”
سیرت نبوی کی تدوین سے پہلے اس کے متعلق کچھ خیالات
قائم کر لیتے ہیں پھر جب سیرت سازی شروع کرتے ہیں
تو رطب و یابس ہر قسم کی روایتوں پر اعتماد کرتے ہیں جس
سے ان کے موقف کی تائید ہوتی ہو، وہ ضعیف یا شاذ کی
پروہ نہیں کرتے؛بلکہ انھیں ضعیف اور شاذ احادیث کو اپنے
استدلال کے طور پر پیش کرتے ہیں“(۳۰) ”اس میں کو ئی
شک نہیں کہ انصاف پسند مستشرقین بھی موجود ہیں؛ لیکن
آٹے میں نمک کے برابر یا پھر وہ جو حق کی روشنی کو دیکھ
کر اسلام کے قریب آئے اور پھر انھوں نے اسلام قبول کر لیا؛ لیکن
مستشرقین کی ایک اکثریت اندھے تعصب میں گرفتار ہے ،
ان کا مقصد اسلام اور پیغمبر اسلام کی اہانت کے سوا کچھ نہیں“(۳۱)
مستشرقین نے اسلامی معاشرہ کی
امتیازی خصوصیات کو ختم کر دیا ہے ، امتیازی
خصوصیات میں اسلام کا تشریعی ، تعلیمی اور
تربیتی نظام ہے ، ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ شریعت
اسلامیہ کو ناکارہ اور بے فائدہ بیان کریں اور اس کے قدیم
مصادر ومآخذ میں شکوک وشبہات پیدا کریں؛ تا کہ مسلمان ان کی
طرف رجوع ہی نہ کریں،مستشرقین کا ایک مذموم رویہ یہ
بھی ہے کہ وہ مسلمانوں کے مختلف طبقوں، مثلاً قائدین ، فاتحین
اور علماء وغیرہ کی شخصیتوں کو مجروع اور ان کا مقام ومرتبہ کم
کرنے کے لیے فرضی واقعات گھڑ لیتے ہیں اور ان کی بنیاد
پر وہ ہر اس چیز کو بھی مورد الزام ٹھہراتے ہیں، جن کا کوئی
تعلق اسلام یا مسلمانوں سے ہوتا ہے ۔
مستشرقین کے پیش نظر یہ
بات بھی ہوتی ہے کہ جہاد کی تاویل وتوجیہہ کر کے
مسلمانوں کو اس کی جانب سے غافل کر دیا جائے اور انھیں عافیت
وآرام پسندی کا درس دیا جائے؛ تا کہ اسلام کی قوتِ مقابلہ پاش
پاش ہو جائے اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی سلطنتوں کے ٹکڑے
کر دیے جائیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ ” مستشرقین
کے نام سے ایک مستقل گروہ نے عربی علوم وادب کی حفاظت واشاعت کو
اپنی زندگی کا مقصد بنایا ، ان کی یہ قابل قدر سر
گرمیاں ہمارے شکریہ کی مستحق ہیں؛ لیکن ظاہرہے کہ یہ
علوم ان کے نہ تھے؛ اس لیے وہ ہمدردی اور محبت جو مسلمانوں کو اپنی
چیزوں سے ہو سکتی ہے ان کو نہیں ہے؛ اس لیے ان کی
تحقیق وتدقیق سے جہاں فائدہ ہو رہا ہے، سخت نقصان بھی پہنچ رہا
ہے ، جس کی تلافی آج مسلمان اہل علم کا فرض ہے ، ان میں ایک
ایسا گروہ بھی ہے جو اپنے مسیحی اور مغربی نقطئہ
نظر سے اسلامی علوم اور اسلامی تہذیب وتمدن پر بے بنیاد
حملہ کر رہا ہے ، قرآن مجید، حدیث وتصوف ، سیرورجال ، کلام
وعقائد سب ان کی زد میں ہیں، نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یورپ
کے اس رنگ کے لٹریچر سے اسلام کو کس قدر نقصان پہنچا ہے اور پہنچے گا ، اگر یہ
زہر اسی طرح پھیلتا رہا اور اس کا تریاق نہیں کیا گیا
تو معلوم نہیں کس حد تک مسلمانوں کے دماغوں میں سرایت کر جائے“(۳۲)
ایڈ ورڈ سید ان مستشرقین
کے منصوبوں کوان الفاظ میں واضح کرتے ہیں ” شرق شناسی ایک
شعبہٴ علم ہے، جس کی بنیاد پر مغرب میں مشرق کے بارے میں
ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ایک رویہ متعین
کیا جاتا ہے اور ایک نقطئہ نظر قائم کیا جاتا ہے گویا
حصول علم ، اور نئی کتابیں ( مشرق کے بارے میں ) دریافت
کرنے کا ذریعہ ہے ، پھر اس پر عملی کام بھی ہوتا ہے، اس کے
علاوہ میں اس لفظ کو خوابوں ، تصورات ، خاکوں اور مجموعہٴ الفاظ جو ہر
کسی کے لیے ہیں اور مشرق سے متعلق مواد کا حامل سمجھتا ہوں ۔(۳۳)
مستشرقین کے تلامذہ جو کہ اب ہر طرف
پھیلے ہوئے ہیں ، اور ان مستشرقین ہی کے دماغ وعقل سے
سوچتے ہیں ، وہ اس لحاظ سے نسبة ً زیادہ خطرناک ہیں کہ وہ
مسلمان ہوتے ہیں ، ان کی تحقیقات وتالیفات مسلمانوں کے
حلقوں میں بہت جلد پہنچ جاتی ہیں اور وہ جو کچھ لکھتے ہیں
ان پر اعتماد بھی کر لیا جاتا ہے ، ایسے افراد کی تحریروں
کا احاطہ کر کے تدارک بھی ضروری ہے ۔
مستشرقین عام طور پر اپنی تحریروں
میں یہ رویہ اپناتے ہیں کہ پہلے اسلام اور پیغمبر ِ
اسلام کے متعلق بڑے فیاضانہ انداز میں تعریفی کلمات کا ڈھیر
لگا دیتے ہیں،جس سے اندازہ ہونے لگتا ہے کہ مصنف بڑے اچھے انداز میں
اسلام کی تشریح پیش کر رہا ہے، اس کے بعد اسلام کے خلاف ایسی
بات کرتے ہیں جو اسلام اور پیغمبر ِ اسلام کے خلاف ہوتی ہے،
سابقہ تعریفی کلمات کی بنیاد پرعام قارئین اس بات
سے متاثر ہو جاتے ہیں ۔
مستشرقین کی ان انتھک متحدہ
کوششوں سے وہ علمی سرمایہ معرض وجود میں آیا ہے کہ آج
مشرق ومغر ب کے ادنی طالب علم سے لے کر بڑے مصنّفین تک جب بھی
کوئی کسی موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کوکسی حد
تک ان مستشرقین کی تصنیف کردہ کتابوں سے استفادہ کرنا پڑتا ہے ،
اگرچہ وہ مسلم ہے اور اس کا ضمیر اس کی اجازت بھی نہیں دیتا؛
مگر اس کے پا س اس کے علاوہ کوئی چارہٴ کار بھی نہیں ہے ۔
مستشرقین کا سب سے خطرناک ارادہ اور
منصوبہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا دل ودماغ توحید ، اخلاق ، روحانیت
اور ایمان سے عاری ہو کر اس تیز وتند ہوا کے سامنے آجائے جو تعلیم
، صحافت ، ادب ، فلم اور لباس وغیرہ کے راستہ سے عام ہو رہی ہے ، ان چیزوں
کے مسموم اثرات سے ایسی نسل تیار ہو رہی ہے ، جو تخریب
اور بربادی کی طرف اس کو ترقی وتمدن کا نام دے کر چلی جار
ہی ہے اور اسلامی تاریخ وتہذیب اور اس کے اصول ومبادی
کو مسخ کر کے مستشرقین ومبلغین کی پیروی کررہی
ہے اور ان ہی کی طرح اس دور کو حقیر اور کمتر خیال کر رہی
ہے ، جو تاریخ عالم کی نمایاں اور مفید خدمت انجام دے چکا
ہے ، اور مسلمانوں کے دلوں میں بھی اس کے ناقص اور فروتر ہونے کا
احساس وشعور پیدا کر رہی ہے ۔
مستشرقین ایسے رہنماوٴں
اور قائدین کو نمایاں اور ممتاز قرار دیتے ہیں جو رسو
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
قائدانہ اوصاف اختیار کرنے کے بجائے فکر ی ، اعتقادی اور اجتماعی
حیثیت سے مغربی قائدین کے نقش قد م پر چلتے ہیں ۔
مستشرقین علماء عرب اور دنیائے
اسلام کو پس ماندگی اور بدحالی سے ہمکنار کر کے اس پر اظہار ہمدردی
کرتے ہیں اور پھر مسلمانوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ان کی
پس ماندگی کا سبب اسلام کی پیروی اور محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کی اقتداء ہے، اس کے لیے وہ بے شمار الزامات گھڑتے ہیں
۔مستشرقین نے ایک منصوبے کے تحت حقائق کو اپنے زوایہ نگاہ
سے دیکھا اور مختلف جہتوں سے الزام تراشی کی اور انھوں نے جوخاص
طرزو انداز اپناتے ہوئے غلط ، بے بنیاد قصے کہانیاں اور روایتیں
نقل کی ہیں اس سے عوام کے ساتھ خاص لوگ جن کا اسلام کے ساتھ گہر ا
تعلق ہے، وہ بھی متاثر نظر آتے ہیں ، ہمارے علمی حلقوں کا اس
طرح متاثر ہونا بڑے خطرے کی علامت ہے، جو کہ آنے والی نئی نسل
پربدترین اثرات مرتب ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔
نو مسلم یورپی مفکرمحمد اسد
نے مستشرقین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کے
اثرات و نتائج کا جائزہ لیا ہے ان کی آراء میں مستشرقین
(قدیم و جدید کی کاوشوں اور ان کے خیالات و تصورات نے عام
مغربی ذہنوں کو مسموم کر دیا ہے؛ چناچہ ان کی (ان کے علاوہ دیگر
مسلم مفکرین کی بھی) تحریریں مغرب میں اسلام
کی دعوت و تبلیغ اور اس کی تفہیم کی راہ میں
بڑی رکاوٹ بن گئی ہیں، ان مستشرقین کی نگارشات کے زیر
اثر عام یورپی و امریکی افراد اسلام کی کسی
طور پر درخور اعتناء نہیں گردانتے، وہ اسلام اور اس کی روحانی
اخلاقی تعلیمات کو کسی بھی نقطئہ نگاہ سے کچھ زیادہ
وقیع اور قابلِ احترام نہیں سمجھتے، نہ وہ اسے عیسائیت
اور یہودیت سے موازنہ کے قابل خیال کرتے ہیں،جیسا
کہ درج ذیل عبارت سے واضح ہوتا ہے۔
تحریک استشراق کا سب سے بڑا نقصان جو ملت
اسلامیہ کو ہوا وہ یہ کہ مسلم امت میں ایک طبقہ ایسا
پیدا ہو گیا جو مستشرقین کو اپنا سب سے بڑا خیر خواہ سمجھتا
ہے اور ہماری زبان ، تہذیب ، تاریخ اور جملہ مشرقی علوم
کو محفوظ رکھنا مستشرقین کی علم دوستی اور بے لاگ تحقیق کی
دلیل سمجھنا ہے ،جس کی وجہ سے آج قومی سوچ یہ بن گئی
ہے کہ ہمارے نزدیک قابلِ اعتماد بات وہ ہوتی ہے جو کسی مستشرق
کے قلم سے نکلی ہو ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ مستشرقین
کواپنا مخلص قرار دیتے ہیں تو پھر ان کی کسی تحریر
کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھنا ممکن ہی نہیں رہتا ، ہماری
اس سوچ کی وجہ سے ہمارے عوام وخواص کی اکثریت ان اصل عزائم
ومقاصد سے بے خبر ہے جن کے تحت مستشرقین علوم اسلامیہ کی طرف
متوجہ ہوئے تھے ، اس صورت حال سے مستشرقین زبر دست فائدہ اٹھا رہے ہیں
اور وہ مسلمانوں کی طرف سے کسی قسم کے رد عمل کے خطرے کے بغیر
ان کے دین ، ان کے معزز رسول صلی
اللہ علیہ وسلم اور ان کی ہر مقدس شے پر مسلسل وار کر رہے ہیں ۔(۳۵)مستشرقین
سے متاثر لوگوں کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ مستشرق خواہ کیسا
ہی انصاف پسند ہو اور اسلام کی رفعت وعظمت کا دل وجان سے قائل ہو ، وہ
بہرحال غیر مسلم ہے ، اس بنا پر وہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ جس
نقطئہ نظر سے کرتا ہے ، وہ بلا شبہ کسی مسلمان کا نقطئہ نظر نہیں ہو
سکتا ؛ اس لیے ان سے خیر کی توقع کم ہی رکھنی چاہیے،
اور نہ ہی کسی ہمدردی کی ۔ مستشرقین کے مکرو
فریب سے بچناخاصا مشکل ہے ، وہ علم کا لباس پہن کر اور تحقیق کا لبادہ
اوڑھ کر آتے ہیں تو اچھے خاصے پڑھے لکھے اور سمجھ دار مسلمان بھی
دھوکہ کھا جاتے ہیں اور ان سے متاثر ہو کر ان کی کاوشوں اور تحقیقی
کاموں کی داد دینے لگتے ہیں ۔اور اس تعداد میں وقت
کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے کہ اب مستشرقین کے بجائے یہی لوگ
اس کام کو سر انجام دے رہے ہیں ، اسی کے متعلق اقبال نے کیا خوب
کہا ہے :
پاسباں
مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
استشراق کے ان علم براداروں کی
تعداد کو دیکھتے ہوئے بعض لوگوں نے ان کو” مستغربین“ کا نام دیا
ہے ، مستشرقین نے اسلامی تعلیمات کے وقار کو مجروح کیا
اور اسلام کے بارے میں شک وشبہ کی ایک ایسی فضا پیدا
کر دی ، جس کا اثر یہ ہوا کہ اس کے اندر سانس لینے والامسلمانوں
کا تعلیم یافتہ طبقہ اپنے آپ کو احساسِ کمتری کا شکار سمجھنے
لگا ،اسلامی ملکوں میں جہاں کی مادری زبان عربی ہے،
عربی کی اہمیت گھٹا کر وہاں کے باشندوں کو مقامی زبانوں
کے زندہ کرنے کے دام میں پھنسایا جاتا ہے؛ تا کہ وہ ان کی طرف
متوجہ ہو کر عربی زبان بھول جائیں اور قرآن کے سمجھنے والے باقی
نہ رہیں ، اس وقت ان کے خیالات اور رجحانات کو اپنے سانچے میں
ڈھال لیا جائے ، استشراق ایک بہت بڑا فتنہ ہے ، جس کے مضر اثرات سے ہر
میدان میں نئی نسل کے مسلمان نوجوان کو بچانا ضروری ہے ،
مستشرقین سے بڑھ کر خطرہ ان کے شاگرد مستغربین کا خطرہ ہے جو مسلمانوں
کے لباس میں ملبوس ہو کر ہمارے تعلیمی اداروں میں ان
مستشرقین کے نظریات وخیالات اور تحریفات وخرافات پھیلاتے
اور نوجوان طلبہ کے ذہن مسموم کرتے ہیں ۔
نتائج بحث
مستشرقین کا اصل مقصد تحقیق
کے لبادے میں اسلامی تعلیمات کو مسخ کر کے اسلام اور مسلمانوں کوبدنام
کرنا ہے اس مقصد کے لیے انھوں نے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا اور میکاؤلی
کا یہ اصول ” کہ مقصد عظیم ہو تو اس کے حصول کے لیے ہر ذریعہ
استعمال کرنا جائز ہے“ کا انھوں نے خوب استعمال کیا؛ حالانکہ میکاؤلی
نے یہ اصول سیاستدانوں کے لیے وضع کیا تھا؛ لیکن یورپ
کے ارباب قلم وقرطاس نے اس اصول سے خوب فائدہ اٹھایا اور قرآن کریم
اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں شک و شبہات
پیدا کیے اور خیالات ِفاسدہ و افکار باطلہ کو تحقیق کی
آڑ میں پھیلانا شروع کر دیا۔
مستشرقین کی اس ساری
تحقیق کا مقصد اسلام کے پیروں کاروں میں تشکیک کے بیج
بونا تھا تا کہ قلم و قرطاس کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں کو فتح کر کے ان پر
حکومت کی جائے اور اقتصادی و معاشی وسائل پر قابض ہو کر اہل
اسلام کو ممکن حد تک کمزور کر دیا جائے جس میں وہ بہت حد تک کامیاب
ہو رہے ہیں۔مسلمانوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے
مستشرقین نے اہم ہتھیار کے طور پر سیرة طیبہ کو استعمال کیا
ہے ، دوران سیرت نگاری صرف تصویر کے اس رخ کو نمایاں طور
پر پیش کیا جس میں ان کی نظر کے مطابق کوئی خامی
یا کمی تھی اور لوگوں کو غلط تاثر دینے کے لیے
کمزور،موضوع اور رطب و یابس ہر قسم کی روایتوں سے مدد لی۔
مستشرقین نے ایک سوچے سمجھے منصوبے
کے تحت حقائق کو اپنے زاویہ نگا ہ سے دیکھا ، مختلف جہتوں سے الزام
تراشی کر کے غلط ،بے بنیاد قصے کہانیاں اور روایتیں
نقل کر دی ہیں جس کی وجہ سے عوام کے ساتھ خواص جن کا اسلام کے
ساتھ گہرا تعلق ہے وہ بھی متاثر نظر آتے ہیں۔
سفارشات
$ اسلام
انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے
اور اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا دین ہے، جو ہر طرح کے حالات اور
تبدیلیوں میں اپنی افادیت اور ضرورت کو برقرار رکھے
گا، یہ ایک انقلابی دعوت ہے جس کے گہرے اور دور رس اثرات مادی
،اقتصادی اور اجتماعی زندگی پر ازل تک مرتب ہوتے رہیں گے،
لہٰذا مدلل اور تقابلی انداز میں اس کی حقانیت کو
واضح کرنا دورِ حاضر کی اہم ضرورت ہے۔
$ مستشرقین
کا اہم ہتھیار سیرة طیبہ ہے جس کو گدلا کرنے کے ساتھ مسلمانوں میں
تشکیک پیدا کی گئی ہے؛ اس لییسیرت طیبہ
کے ذخیرئہ کتب کو از سر نو مرتب کیا جائے اور مستشرقین کے
اعتراضات کو نقل کرکے پڑھنے والوں کے لیے تشفی بخش سامان مہیا کیا
جائے۔
$ مستشرقین
کی وہ کتب جو تحقیق کے قواعد و ضوابط پر پورا نہیں اترتیں
،ان کی نشاندہی کی جائے اور ان کی نشر و اشاعت پر پابندی
لگائی جائے۔
$ عام
مسلمانوں کے لیے شریعت اسلامیہ کے تشریعی ، تعلیمی
اور تربیتی پروگرامزکرا ئے جائیں،اور دین ِ اسلام کی
تشریح عام فہم انداز میں بیان کی جائے۔
$ مسلم
اسکالرز جو مستشرقین سے متاثر ہو کر قلم و قرطاس کے ذریعے سے مستشرقین
کے مقاصد کو پایہٴ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں، ان کی
تحریرو تقریر کو مستند اہلِ علم سے تصدیق کے بعد ترویج و
اشاعت کی اجازت دی جائے۔
$ تعلیم،
صحافت، ادب اور میڈیا کے تحت اسلام،پیغمبر ِ اسلام کے خلاف ہونے
والے پروپیگنڈا پر سختی سے پابندی لگائی جائے۔
$ حکومتی
سطح پر عربی زبان کی ترویج و ترقی ہو؛ تا کہ ہم اپنے حقیقی
ورثہ کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھ کر قابلِ استفادہ بنا سکیں۔
$ سیرة
النبی کی اہم عربی و اردو کتب کا انگریزی زبان میں
ترجمہ کروایا جائے؛ تا کہ انگریزی خواں جدید تعلیم یافتہ
طبقہ بھی اس سے مستفید ہو سکے۔
$ مستشرقین
سے متاثر لوگوں کو ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ مستشرق
خواہ کیسا ہی انصاف پسند ہو اور اسلام کی رفعت و عظمت کا دل و
جان سے قائل ہو وہ بہرحال غیر مسلم ہے ، اس بنا پر وہ اسلام اور پیغمبر
اسلام کا مطالعہ جس نقطہ سے کرتا ہے، وہ بلا شبہ کسی مسلمان کا نقطئہ نظر نہیں
ہوسکتا؛ اس لیے ان سے بھلائی و خیر کی امید کم ہی
رکھنی چاہیے۔
$ عہدِ
حاضر کی اشد ضرورت ہے کہ پورے استشراقی لٹریچر کا تنقیدی
جائزہ لیا جائے اور اس کو مکمل اور با ضابطہ طور پر علمی اصولوں کی
کسوٹی پر پرکھا جائے ،اور ان مسلمان مصنفین کی تحریروں کو
بھی ، جن کے طرز فکر میں مستشرقین کے خیالات کا عکس
جھلکتا ہے ،ان کی تحریروں کا جائزہ لے کر علمی تلبیسات
وتدلیسات کو واضح کیا جائے۔
$ اسلام
سے متعلق اسکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک طلبہ کے لیے
دور جدید کے تقاضوں کے مطابق ایسی کتب تیار کروائی
جائیں جو تعلیمی نصاب کا حصہ بن سکیں۔
$ آج
کے دور میں تحقیق سے آراستہ اور جدید اسلو ب اور موجودہ دو ر کے
تقاضوں کے مطابق ہر زبان میں کتابیں لکھیں جائیں؛ تا کہ
نئی نسل کو مستشرقین کے گمراہ کن نظریات سے محفوظ رکھا جا سکے ۔
$ تصنیف
و تالیف کا تمام کام علمی معیار، موجودہ تحقیق اور جدید
اصولوں کے عین مطابق ہو؛ تا کہ ان کتابوں کا مطالعہ مسلم و غیر مسلم
سب کے لیے یکساں طور پرمفید ہو۔
$ مستشرقین
کے اعتراضات کا سد باب کرنے کے لیے مطالعہ میں وسعت وگہرائی اور
استدلال کے ساتھ تحمل مزاجی بھی پیدا کی جائے۔
$
دور حاضر کی زبان اور محاورے میں دین کی تعبیر وتشریح
عام فہم انداز میں بیان کی جائے اور اس میں ان لوگوں کی
تشفی کا سامان بھی موجود ہو جو استشراقی لٹریچر سے متاثر
ہوچکے ہیں۔
$ اسلامی
ممالک میں تحقیق کے جدید مراکزقائم کیے جائیں جس میں
مستشرقین کے اعتراضات و اثرات کا جواب کتب، مضمون نگاری اور انٹرنیٹ
کو استعمال میں لاتے ہوئے دیا جائے۔
$ اسلامی
ممالک میں جدیدخطوط پر استوار مراکز کے تحت مستشرقین کے عنوان
پر سیمینارز کروائے جائیں۔
$ یونیورسٹیوں
اور اسلامک سٹڈیز کے شعبوں کے سر براہ اور استاتذہ اس بات کا خاص خیال
رکھیں کہ ان کے طالب علم مستشرقین کے مراجع پر اعتبار نہ کریں۔
مسلمان مترجمین جب مستشرقین کی
کسی کتاب کا ترجمہ کریں تو اس میں قابل ِ اعتراض عبارتوں کے
جوابات دینے میں تساہل کا مظاہرہ نہ کریں۔
$ اس
زہر ِ قاتل کا تریاق مہیا کرنا، اس وقت علمِ دین اور دینِ
اسلام کی بہت بڑی اور نہایت ضروری خدمت ہے ۔
$$$
حوالہ جات
(۱) اصلاحی ،شرف الدین ، مستشرقین ، استشراق اور اسلام
،، ص۴۸، معارف دار المصنّفین اعظم گڑھ ، ۱۹۸۶ء۔
(۲)عبد الحق ، دی اسٹینڈرڈ
انگلش اردو ڈکشنری ،ص۷۹۶،انجمن اردو پریس ، دکن ۱۹۳۷ء۔
(۳)The Oxford Dictionary of English, The
biologolical Society, V.2 Page,200.
(۴) بذیل مادہ :ش ر ق Dictionery of Modern Written Arabic
Han's wahr
(۵)
ابن منظور الافریقی ، محمد بن مکرم ،لسان العرب۱۰ /۱۷۴،
دار صادر بیروت ۔
(۶) البعلبکی ،منیر،
المورد ، بذیل مادہ : ش۔ر۔ق۔
(۷)فرخ، عمر”الاستشراق ، مالہ۔
وماعلیہ“ الاستشراق والمستشرقون(عدد خاص، مجلہ المنھل، عدد۴۷۱)
اپریل/مئی ۱۹۸۹ء،ص۱۵۔
(۸)Said, Edward W, Orientalism, Routedge
& Kegan Paul London, 1978 p.21
(۹)الندوی ، ابو الحسن علی
، الاسلامیات بین کتابات المستشرقین ،موٴسسة الرسالة ، بیروت۱۹۸۶ء،ص
۱۵۔۱۶.
(۱۰)اسلام
اور مستشرقین ، ۶ / ۲۵۸ ،دار المصنّفین شبلی
اکیڈمی ، اعظم گڑھ ، یو پی (الہند) ۔
(۱۱)المنجدفی اللغة
والاعلام ، ص ۳۸۴، طبع الثالثة والعشرون ، المکتبة الشرقیة
، بیروت لبنان ۔
(۱۲)نثار احمد ، ڈاکٹر ،
مستشرقین اور مطالعہ سیرت ، نقوش ادارہ فروغ اردو ، لاہور،۱۹۸۵ء
، ۱۱/ ۴۹۴۔
(۱۳)ہیکل ، محمد حسین
، حیاة محمد ، ص۲، القاہرہ مکتبة نہضة المصریہ ، ۱۹۷۴ء۔
(۱۴)اکر م ،ڈاکٹر محمد ،
استشراق ، ص ۵۶۷ ،تکملہ دائرہ معارف اسلامیہ ،شعبہ اردو
دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور،۲۰۰۲ء،مادہ
شرق۔
(۱۵)السباعی،ڈاکٹر مصطفی،الاسلام
والمستشرقون ،مترجم مولانا سلمان شمسی ندوی،ص۱۲، ادارہ
اسلامیات لاہور، ۱۹۷۱ء۔
(۱۶) Asad. Muhammad,Islam at the crossroads.
Lahore. Arfat Publication.1995.P-74
(۱۷)سباعی،ڈاکٹر مصطفی،الاسلام
والمستشرقون ،مترجم مولانا سلمان شمسی ندوی،ص۱۳، ادارہ
اسلامیات لاہور، ۱۹۷۱ء۔
(۱۸)نفس
المصدر،ص۱۳۔
(۱۹)نفس المصدر،ص۱۴۔۱۳۔
(۲۰)ثناوٴاللہ ،قرآن کے
بارے میں مستشرقین کے نظریات اور چند اعتراضات کا تنقیدی
جائزہ ، ص۱۴۸، القلم ۲۰۰۹ ء۔
(۲۱)السباعی ،ڈاکٹر
مصطفی ،السنہ و مکانتھا فی التشریع الااسلامی ،مترجم غلام
احمد حریری ،ص۴۶۶،۴۶۷،ملک سنز
پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۰۶ء۔
(۲۲)ظفر ،ڈاکٹر عبدالرؤف
،علوم الحدیث فنی فکری تاریخی مطالعہ، ص،۹۱۶،۹۱۷،ادارہ
نشریات لاہور ۲۰۰۹/۔
(۲۳)ہاشمی ، عبد القدوس
،ماہنامہ فکرونظر،ص ۴۴۰ ، اسلام آباد، دسمبر۱۹۶۹ء۔
(۲۴)السباعی ، ڈاکٹر
مصطفی ،المستشرقون والاسلام ، مترجم مولانا سلمان شمسی ندوی،ص ۷۸۔
(۲۵)ابن ہشام ،عبد الملک ،سیرة
النبی ،۱/۳۰۱، ناشر ،دار الجیل بیروت
،ط/۱ ، ۱۴۱۱ھ۔
(۲۶)Khan,Sir Syed Ahmed, A series of Essays
on the life of Muhammad, p.387, Premier Book House, Lahore,1968.
(۲۷)ثانی ،ڈاکٹر محمد،
رسول اکرم اور رواداری،ص۲۱۳، فضلی سنز لمیٹڈ
کراچی ۱۹۹۸ء۔
(۲۸)میرٹھی،مولانا
بد ر عالم ،ترجمان السنة ۳/ ۱۲۱، مکتبہ رحمانیہ
اردو بازار لاہور ۔
(۲۹)دہلوی ،شاہ ولی
اللہ ،حجة البالغة ۱/۱۵، دارالمعرفة بیروت ،ط:۲ ، ۲۰۰۴/
۔
(۳۰)ظفر، ڈاکٹر عبدالرؤف ،
اسوہ کامل،ص۲۵ ، نشریات اردو بازار لاہور،۲۰۰۹ء۔
(۳۱)بدایونی ،
محمد اسماعیل ،استشراقی فریب ، ص۵۲،اسلامک ریسرچ
سوسائٹی کراچی ،طبع ،جولائی ۲۰۰۹ء۔
(۳۲)اسلام اور مستشرقین۵
/۴۔
(۳۳)سعید، ایڈورڈ
، شرق شناسی ، ص ۸۵ ، مترجم ،ط ،۱‘ ۲۰۰۵ء،
مقتدرہ قومی زبان ، پاکستان ۔
(۳۴)محمد ارشد ،اسلام اور
مغرب،ص۳۳،فکر و نظر ،اپریل ۔جون ۲۰۰۶ء،
ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد۔
(۳۵)الازہری، پیرمحمد
کرم شاہ ، ضیاء النبی ،۶/ ۲۳۴،ضیاء
القرآن پبلی کیشنز، لاہور۔
$ $ $
---------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5، جلد:
99 ، رجب 1436 ہجری مطابق مئی 2015ء